
سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ نور مقدم کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والے مجرم ظاہر ذاکر جعفر نے نظرثانی درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت نے ملزم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا، سپریم کورٹ سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کی گئی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے اس متفرق درخواست پر فیصلہ نہیں دیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت دینے کے لیے ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کیا گیا، ویڈیوز ٹرائل کے دوران درست ثابت بھی نہیں کی گئیں، ملزم کو ویڈیو ریکارڈنگز فراہم بھی نہیں کی گئیں۔
وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرائل کے دوران عدالت میں کبھی وہ ویڈیوز چلا کر بھی نہیں دیکھی گئیں، فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ فیصلے پر نظرثانی کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں، عدالت اپنے 20 مئی کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
یاد رہے کہ مئی 2025 میں سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جسٹس ہاشم کاکڑ نے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مختصر فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ظاہر جعفر کے خلاف قتل کی دفعات میں سزائے موت برقرار رکھی ہے، ریپ کیس میں سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی ہے، جب کہ اغوا کے مقدمے میں 10 سال قید کو کم کرکے ایک سال کر دیا گیا ہے، عدالت نے نور مقدم کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ظاہر جعفر کے مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار نے جتنی سزا کاٹ لی، وہ کافی ہے، شریک ملزمان کو عدالت کا تحریری فیصلہ آنے کے بعد رہا کردیا جائے۔
0 تبصرے