
بھارت کی جانب سے پنجاب کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے پر سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچادی ہے، کئی مقامات پر بند ٹوٹنے سے پانی آبادیوں میں داخل ہوگیا۔
راوی، چناب اور ستلج میں سیلابی ریلا گزرنے کے باعث اطراف کے دیہات زیر آب آگئے جبکہ متاثرہ فصلیں بھی تباہ ہوگئیں۔
سیلاب کے باعث گھروں کی چھت گرنے اور سیلابی پانی میں ڈوبنے سے 17 افراد کی اموات کی تصدیق ہوگئی جبکہ متعدد افراد لاپتہ ہیں۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کے مطابق چودہ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ہزاروں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں اور خوراک و ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔
تیس اضلاع میں تین ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے اور سات سو کشتیاں ریسکیو آپریشن میں شامل ہیں۔
راول ڈیم میں پانی کی سطح ایک ہزار سات سو اکان فٹ ہو گئی ہے۔ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائیش بنانے کیلئے اسپیل ویز کھول دئیے گئے ہیں۔
راول ڈیم کے اسپیل ویز کھولنے سے قبل سائرن بجائے گئے اور قریبی آبادیوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انتظامیہ ڈیم سے پانی کے اخراج کی مانیڑنگ کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ راول ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی آخری حد ایک ہزار سات سو باون فٹ ہے۔
ادھر ہیڈ مرالہ پر سیلابی ریلے کی وجہ سے سیالکوٹ کو بجوات سیکٹر کے 80 دیہات سے ملانے والا واحد راستہ تباہ ہو گیا۔
علاقے میں پانچ سال کی محنت اور ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے نصب کی گئی چیئرلفٹ بھی پانی میں بہہ گئی۔
متاثرہ عوام کا کہنا ہے کہ تین دن گزر گئے لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی، اور ایم این اے صرف فوٹو سیشن کے لیے آئے۔
تحصیل رائے ونڈ کے علاقے ملتان روڈ پر واقع متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیز میں راوی کا پانی داخل ہونے سے سیکڑوں گھروں کو خالی کروا کر شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔
تھیم پارک ملتان روڈ میں سیلابی پانی نے تباہی مچادی۔ انتظامیہ کی جانب سے کرین کے ذریعے بند باندھنے کی کوشش جاری ہے۔
دوسری جانب ریسکیو ٹیم نے سیلابی پانی میں پھنسے مانگا ہتھاڑ اور نانو ڈوگر سے پچاس سے زائد افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔
شہریوں کا انخلا
پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔
دریائے چناب، راوی، ستلج، جہلم اور سندھ سے ملحقہ علاقوں سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر سے 45 ہزار سے زائد افراد کا انخلا ممکن بنایا گیا ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہاالدین، حافظ آباد، نارووال، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن شامل ہیں۔
پنجاب کے 30 اضلاع میں جاری ٹرانسپورٹیشن آپریشن میں 669 بوٹس اور 2861 ریسکیورز شریک ہیں۔
منڈی بہاؤالدین کے علاقے کالا شیدیاں سے 816 اور حافظ آباد کی تحصیل پنڈی بھٹیاں سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 625 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔
ننکانہ صاحب میں 1553 افراد کو سیلابی پانی سے بحفاظت نکالا گیا، جن میں 568 خواتین اور 318 بچے بھی شامل ہیں۔
متاثرہ دیہاتوں سے 2392 مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
ننکانہ صاحب میں ریسکیو آپریشن کے لیے 14 بوٹس، 93 ریسکیو ورکرز اور 122 رضاکار سرگرم عمل رہے۔
سیلاب متاثرین کے لیے قائم 7 فلڈ ریلیف اور شیلٹر کیمپس میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر علاج، خوراک اور دیگر سہولیات کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔
تاکہ متاثرین کو ہر ممکن ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
دریائے راوی
دریائے راوی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے اور شاہدرہ کے علاقے میں آبی ریلا دو لاکھ انیس ہزار کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔
فرخ آباد میں متعدد گھر پانی میں ڈوب چکے ہیں، جبکہ بادامی باغ اور عزیز کالونی میں بھی پانی داخل ہو چکا ہے۔
کوٹ نینا اور جسڑ پر اب بھی دباؤ برقرار ہے اور سائفن و ہیڈ بلوکی میں بھی پانی کے تیور شدید ہیں۔
جس سے لاہور کے لیے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی میں سیلابی پانی کے بہاو میں مسلسل اضافہ ہو رہا۔
ریلیف کمشنر پنجاب نے بتایا کہ دریائے راوی میں شاہدرہ لاہور کے مقام سے 2 لاکھ 50 ہزار کیوسک تک کا ریلا بآسانی گزارا جا سکتا ہے۔
سیلابی پانی دریائے راوی کے کناروں سے اوپر ہوگیا اور شاہدرہ کی جانب ملحقہ آبادیوں میں بھی پانی بڑھنے لگا ہے۔
سیلابی پانی کی مقدار میں اضافے کے باعث اطراف کی مساجد میں آبادیاں خالی کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
ریسیکو ٹیموں نے ’’پیرا‘‘ فورس کے ہمراہ اطراف کی آبادیوں میں مقیم افراد سے گھر خالی کروا لیے۔
لاہور کی پانچ تحصیلوں کے 22 موضعہ جات ضلعی انتظامیہ خالی کروا چکی ہے۔
سول ڈیفنس، ایدھی، ریسکو 1122 سمیت دیگر اداروں کے اہلکار بھی موجود ہیں۔
ضلع شکرگڑھ میں سیکٹروں ایکٹر فصیلیں پانی میں ڈوب گئیں۔
جبکہ درجنوں گھر گر گئے جس کے سبب 3 افراد جاں بحق ہوئے۔
دریائے چناب
دریائے چناب میں دس لاکھ کیوسک کے سیلابی ریلے نے قریبی بستیاں زیرِآب کردیں، جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔
قادرآباد، خانکی، وزیرآباد، سبمبریال، حافظ آباد، گوجرانوالہ، منڈی بہاالدین اور سرگودھا کے علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
ملتان اور مظفرگڑھ میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظر انتظامیہ نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔
اور ہیڈ محمد والا بند توڑنے کی تیاری بھی شروع کر دی گئی ہے۔
جھنگ اور ملتان کے لیے اگلے 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیے گئے ہیں تاکہ ممکنہ تباہی سے بچاؤ کیا جا سکے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔
جبکہ خانکی اور قادرآباد پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب جاری ہے۔
سبمڑیال میں 50 سے زائد دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں اور سیلابی ریلے میں 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو 6 سے 7 لاکھ کیوسک کا ریلا مظفرگڑھ پہنچے گا۔ فلڈ بندوں کی خستہ حالی کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔
چنیوٹ میں ساڑھے 3 لاکھ کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے، تاہم بند توڑنے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔
دریائے ستلج
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر انتہائی خطرناک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 61 ہزار کیوسک ہے۔
ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پانی کا بہاو 1 لاکھ 9 ہزار کیوسک ہے، جس کے باعث درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔
وہاڑی میں لکھا سلدیرا اور جتیرا کے حفاظتی بند ٹوٹ گئے جس کے سبب سیلابی پانی لکھا سلدیرا اور موضع جتیرا میں داخل ہوگیا۔
دریائے ستلج میں طغیانی کے باعث بہاولنگر کی سیکڑوں بستیاں زیرِ آب آ گئی ہیں۔
جبکہ میلسی میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے کئی دیہات ڈوب چکے ہیں۔
عارف والا میں دریا کے بیٹ میں مزید بستیاں پانی میں گھر گئی ہیں۔
جب کہ مراد والا بند ٹوٹنے سے کالیہ شاہ، موضع دھول، موضع سائیفن، جھوک گامو، جھوک فاضل اور ویرسی واہن شدید متاثر ہوئے ہیں۔
گنڈا سنگھ والا کے مقام پر دریائے ستلج میں انتہائی خطرناک اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔
لودھراں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج طلب
پنجاب میں سیلابی صورت حال کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب نے لودھراں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج طلب کر لی ہے۔
پاک فوج کے دستوں کو ضلعی انتظامیہ کی امداد کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
حکومت پنجاب کا سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن جاری ہے۔
انتظامیہ، پی ڈی ایم اے، سول ڈیفنس، ریسکیو اور پولیس ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔
محکمہ داخلہ کے مطابق 9 ہزار سے زائد سول ڈیفنس رضا کار فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
سیلابی علاقوں میں سول ڈیفنس کے ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں، سول ڈیفنس پنجاب کے شہریوں کا مدد گارہے۔
عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں، شہری ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا سیلابی صورتحال کا جائزہ
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے نارووال اور سیالکوٹ کا دورہ کیا۔
انہوں نے گوردوارہ کرتارپور اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دریائے راوی کا دورہ کرتے ہوئے کشتی میں سوار ہو کر شاہدرہ کے مقام کا جائزہ بھی لیا۔
سینئر وزیر مریم اورنگزیب ، وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری اوروفاقی وزیر عبدالعلیم خان بھی ہمراہ تھے۔
اس موقع پر ضلعی انتظامیہ کے افسران کی جانب سےوزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بریفنگ بھی دی گئی۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمارے تین دریاؤں میں پانی کا شدید دباؤ ہے۔
انتظامیہ اور ریسکیو اداروں نے بھرپور کام کیا ہے، بروقت اقدامات نہ ہوتے تو سیلاب سے تباہی زیادہ ہوتی۔
پنجاب کے کسی نہ کسی حصے میں موسلادھار بارشیں ہوئیں، اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔
پنجاب کی انتظامیہ نے 50 ہزار سے زائد افراد کومحفوظ مقام پر پہنچایا، گجرات، نارووال اور سیالکوٹ میں بری صورتحال تھی۔
پنجاب کے کون کون سے شہر سیلاب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں؟
پنجاب کے دریاؤں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب سے کون کون سے شہر زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے فہرست جاری کردی گئی ہے۔
دریائے چناب میں گجرات، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، چنیوٹ اور جھنگ پر خطرات منڈ لانے لگے۔
دریائے راوی میں لاہورعلاقے کوٹ منڈو، عزیز کالونی، قیصر ٹاؤن اور فیصل پارک کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
راوی کا پانی شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور خانیوال کے دیہات کی طرف بڑھنے لگا۔
دریائے ستلج میں قصور، پاکپتن، پھول نگر، اوکاڑہ، بہاولنگر میں ہنگامی صورتحال ہے۔
این ڈی ایم اے نے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے الرٹ جاری کردیا ہے۔
0 تعليقات