
انہوں نے کہا ’’کوئی 28ویں ترمیم زیر غور نہیں ہے۔‘‘ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔
وزیرِ اعظم کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں کسی نئی آئینی ترمیم سے متعلق کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔
ڈاکٹر طارق نے کہا کہ اس معاملے پر کوئی اجلاس نہیں ہوا اور موجودہ بحث میڈیا کی پیدا کردہ قیاس آرائی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ 27ویں آئینی ترمیم کے پیکج میں شامل کچھ تجاویز اتفاقِ رائے نہ ہونے کے باعث خارج کر دی گئی تھیں، وہ آئندہ کبھی دوبارہ زیر غور آ سکتی ہیں، لیکن فی الحال 28ویں ترمیم پر کوئی کام شروع نہیں ہوا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ’’اس وقت 28ویں آئینی ترمیم پر کوئی غور نہیں ہو رہا‘‘ اور تصدیق کی کہ وزیر قانون سے بھی یہی بات دوبارہ معلوم کر لی گئی ہے۔ ’’جو بھی 28ویں ترمیم کے بارے میں پوچھ رہا ہے، اسے یہی جواب دیا جا رہا ہے کہ ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔‘‘
چند وزرا کی جانب سے 28ویں ترمیم کا ذکر کیے جانے کے بعد قیاس آرائیاں بڑھ گئیں، خاص طور پر وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ کے حالیہ بیان کے بعد کہ حکومت ’’جلد 28ویں آئینی ترمیم متعارف کرائے گی۔‘‘
چنیوٹ میں صحافیوں سے گفتگو میں مبینہ طور پر انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیم کا تعلق مقامی حکومتوں، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) اور صحت سے متعلق امور سے ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان موضوعات پر مشاورت جاری ہے اور اگر اتفاقِ رائے ہوا تو حکومت اس سمت میں پیش قدمی کر سکتی ہے۔
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عدیل ملک کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ رپورٹس آئیں کہ انہوں نے 28ویں ترمیم سے متعلق بات کی ہے۔ تاہم، گزشتہ چند دنوں میں متعدد کوششوں کے باوجود انہوں نے نہ موبائل کالز اٹینڈ کیں اور نہ ہی کوئی جواب دیا۔
0 تبصرے